roman urdu me padhne ke liae click here
سوال از : محترم جناب حسن رضوی صاحب / لکھنؤ
السلام عليكم آقا
سنی روایت میں کیا یہ ہے کہ بی بی فاطمہ (سلام الله عليها) کی نماز جنازہ عمر ل - ع نے پڑھائی تھی ؟
جواب :
باسمه تعالى
ياصاحب الزمان ادركنا
عليكم السلام و رحمةالله و بركاته
عمر نے نماز جنازہ پڑھائی اس بارے میں اب تک کوئی روایت میری نظر سے نہیں گزری ہے، ہاں انگشت شمار روایات میں آیا ہے کہ ابوبکر نے پڑھائی
اس کے متعلق صرف ایک روایت ذکر کی جاتی ہے :
"أخبرنا محمد بن عمر حدثنا قيس بن الربيع عن مجالد عن الشعبي قال صلى عليها أبوبكر"
" ہم کو محمد بن عمر نے خبر دی، ہم سے قیس بن ربیع نے بیان کیا، ان سے مَجالِد نے، ان سے شعبی نے کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی نماز جنازہ پڑھائی "
(طَبَقاتُ الکُبری - ج 8 - ص 29 - تالیف ابن سعد ناشر دار صادر بیروت)
آئیئے اس روایت کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں
یہ روایت سندا ضعیف اور متنا باطل ہے
سند کے اعتبار سے :
اس روایت کی سند میں پہلا راوی "محمد بن عمر (واقدی)" ضعیف ہے
اسحاق بن راھَوَیه نے کہا :
"عندی ممن يضع الحديث"
" میرے نزدیک یہ (محمد بن عمر واقدی) حدیث گھڑنے والوں میں سے تھے "
شافعی نے کہا :
واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں
دوسرے محدثین نے کہا :
ان کی روایتیں ضعیف اور متروک ہیں
(الجَرح وَالتَّعدیل - ج 8 - ص 21 - تالیف ابن ابی حاتِم رازی - ناشر مجلس دائرة المعارف العثمانية حیدر آباد دکن ہندوستان اور دار احیاء التراث العربى بيروت)
ذهبى نے کہا :
" إِذْ قَدِ انْعَقَدَ الإِجْمَاعُ اليَوْمَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ، وَأَنَّ حديثه في عداد الواهي "
" آج اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ "محمد بن عمر واقدی" حجت نہیں ہے اور اس کی حدیث سخت غیر مستند، ضعیف اور کمزور میں شمار ہوگی "
سِیَر اَعلامُ النُّبَلاء - ج 8 - ص 165 - تالیف شمس الدین ذھبی ناشر دار الحدیث قاہرہ)
اس روایت کی سند میں دوسرا راوی "قیس بن ربیع" بھی ضعیف ہے
یہ کثیر الخطا، متروک الحدیث ہے اور ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے، ابو حاتم کے نزدیک ان کی احادیث قابل احتجاج نہیں ہیں اور نَسائی نے کہا : متروک ہے
(سیر اعلام النبلاء - ج 7 - ص 147 اور ج 8 ص 527 کا حاشیہ - تالیف شمس الدین ذھبی ناشر دار الحدیث قاہرہ)
ان کے علاوہ اور بھی متعدد سنی محدثین اور علما نے "قیس بن ربیع" اور "محمد بن عمر واقدی" پر سخت تنقید کی ہے، علم رجال کی کتابیں پڑھیں
روایت کی سند میں تیسرا راوی "شَعبی" ہے
یہ عمر بن خطاب کے دور خلافت میں پیدا ہوئے
(تَذكِرَةُ الحُفَّاظ - ج 1 - ص 63 - تالیف شمس الدین ذھبی - ناشر دار الكتب العلمية بيروت)
شعبی بھی ضعیف ہے اس کے علاوہ اس روایت کے ضعیف اور کذب ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ "شعبی" کو حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی شہادت کا دور ملا ہی نہیں، شہادت کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا کیونکہ آپ کی شہادت ابوبکر کے دور خلافت میں ہوئی اور شعبی کی ولادت عمر کے دور خلافت میں ہوئی
ملاحظہ فرمایا کہ اس روایت کے دو راوی ضعیف اور جھوٹے ہیں، ان کی احادیث قابل احتجاج نہیں ہیں
اور تیسرا راوی (شعبی) بھی ضعیف ہے اور حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی شہادت کے موقع پر نہیں تھا، ان کی بات و خبر قابل اعتبار نہیں ہے لہذا یہ روایت سندا باطل و مردود ہے
متن کے اعتبار سے :
ابوبکر کے نماز جنازہ پڑھانے والی مذکورہ اور اس کے علاوہ دوسری روایت متنا باطل اور بے اصل ہے
طبقات کبری کی روایت: "ابوبکر نے حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی نماز جنازہ پڑھائی" کا ذکر کیا گیا خود اسی کتاب میں دوسری روایت ہے کہ امام زین العابدین (عليه السلام) نے رسول خدا اور حضرت علی (عليهم السلام) کے چچازاد بھائی، جلیل القدر اور بزرگ صحابی، محدث، فقیہ، حافظ اور مفسر حضرت ابن عباس سے پوچھا :
" مَتَی دَفَنْتُمْ فَاطِمَةَ؟ فَقَالَ: دَفَنَّاهَا بِلَیْلٍ بَعْدَ هَدْاَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: فَمَنْ صَلَّی عَلَیْهَا؟ قَالَ: عَلِیُّ "
"حضرت فاطمہ (عليها السلام) کو کب دفن کیا ؟ تو ابن عباس نے فرمایا : رات میں آمد و رفت بند ہوجانے (اور سناٹا چھا جانے) کے بعد آپ کو دفن کیا، امام سجاد (عليه السلام) نے پوچھا کس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ؟ تو حضرت ابن عباس نے فرمایا علی (علیه السلام) نے"
(طَبَقاتُ الکُبری - ج 8 - ص 30 - تالیف ابن سعد ناشر دار صادر بیروت)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے :
" ... فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا ..."
"... حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) ابوبکر پر غضبناک ہو گئیں، ان سے قطع تعلق کرلیا اور ان سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ وفات پاگئیں، حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) نبی (صلی اللہ علیه وآله) کے بعد چھہ مہینے تک زندہ رہیں،جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی (عليه السلام) نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابوبکر کو اس کی خبر نہیں دی اور حضرت علی ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ..."
- صحیح بخاری - ج 5 - ص 139 - کتاب المغازی باب غزوہ خیبر کا بیان - ناشر دار طَوقُ النَّجاة
- صحیح مسلم - ج 3 - ص 1380 - ناشر دار احياء التراث العربى بیروت
واضح رہے کہ یہ روایت بخاری میں دو یا تین جگہ موجود ہے
ان روایات اور ان کے علاوہ متعدد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ حضرت علی (عليه السلام) نے پڑھائی
ابوبکر کے نماز جنازہ پڑھانے والی روایت سندا اور متنا ضعیف ہے اور برادران سنی کی معتبر ترین کتاب صحیح بخاری ، صحیح مسلم کی روایات اور اس کے علاوہ کئی صحیح اور معتبر روایات کے منافی اور خلاف ہے
معتبر و صحیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایت کو فوقیت دینا اور اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے، اصول حدیث کے مطابق صحیح اور معتبر روایات پر کسی ضعیف روایت کو مقدم کرنا انتہائی احمقانہ فعل ہے لہذا اس کے سبب ابوبکر کے نماز جنازہ پڑھانے والی روایت متنا بھی منکر، باطل، جھوٹی اور من گھڑت ہے
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات میں بالفاظ صریح یہ کہا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کو ان کے شوہر حضرت علی (عليه السلام) نے رات میں آمد و رفت بند ہوجانے (اور سناٹا چھا جانے) کے بعد دفن کردیا اور ابوبکر کو ان کی وفات (شہادت) کی اطلاع نہ دی
رات میں دفن کیا اور ابوبکر کو وفات کی خبر نہیں دی
یہاں سب سے اہم اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر ابوبکر تھے ہی نہیں، جب تھے ہی نہیں تو نماز جنازہ کیسے پڑھا دی ؟
بچے کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ایسا نہیں ہو سکتا
دوسری بات یہ ہے کہ روایات میں صراحت کی گئی ہے کہ دختر رسول خدا حضرت سیدہ، خاتون جنت (سلام الله عليهم) ابوبکر پر غضبناک ہوئیں، مرتے دم تک ابوبکر سے بات نہ کی اس کے باوجود ایک روایت کے مطابق حضرت علی (عليه السلام) نے ابوبکر کو پکڑ کر آگے کیا پھر ابوبکر نے نماز جنازہ پڑھائی
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حضرت فاطمہ (عليها السلام) جس پر غضبناک تھیں اور مرتے دم تک جس سے بات نہ کی حضرت علی جیسا شوہر ان ہی سے حضرت فاطمہ جیسی شریک حیات کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیئے کہے !!!
تیسری بات یہ ہے کہ سنیوں کے بہت سارے بزرگ علما نے اپنی کتابوں میں صراحت سے لکھا ہے کہ حضرت علی (عليه السلام) نے حضرت فاطمہ (عليها السلام) کی نماز جنازہ پڑھائی
خلاصئہ تحقیق :
ابوبکر کے نماز جنازہ پڑھانے کے بارے میں چند روایتیں ہیں اور وہ سب کی سب سندا اور متنا من گھڑت، مکذوب اور باطل ہیں
حضرت علی (عليه السلام) نے حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کی نماز جنازہ پڑھائی اس کے بارے میں بےشمار صحیح حدیثیں موجود ہیں
صحیح حدیثوں کے مقابلے میں اگر مگر کا کھیل اچھی بات نہیں ہے
متعصب لوگ صرف چند ضعیف روایت بنا تحقیق پیش کرکے تمام صحیح روایات کے خلاف عقیدہ بناکر سمجھتے ہیں کہ ابوبکر نے نماز جنازہ پڑھائی
اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) کے قاتل کو بری کیا جائے اور خلیفہ سے آپ کے غضبناک و ناراض ہونے پر پردہ ڈالا جائے اور اس کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے
تبصرہ :
مذکورہ بالا بیان میں جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سب سنی کتابیں ہیں
مفید ویڈیو دیکھنے کے لیئے نیچے دی گئی سرخی دبائیں
والسلام
سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارئہ "دارالعترت" عظیم آباد / پٹنہ - شعبئہ سوالات قم ایران
22 / ذی الحجہ / 1445ھ.ق
No comments:
Comment