آل سعود یا آل سقوط (دوسرا حصہ) - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Friday, June 30, 2017

آل سعود یا آل سقوط (دوسرا حصہ)

باسمہ تعالی


آل سعود یا آل سقوط (دوسرا حصہ)


گذشتہ قسط میں عرض کیا تھا کہ سعودی فوج کو حوثیوں سے چھہ مرتبہ ذلت آمیز شکست ہوئی صرف آل سعود ہی کو شکست فاش نہیں ہوئی بلکہ یہ جس کی ناجائز اولاد ہیں ان کو بھی شکست ہوئی تقریبا ١٩٣٨ میں برطانیہ (british) نے یمن پر حملہ کیا تھا لیکن بھاگنے پر مجبور ہوگئے انیسویں صدی کے اوائل میں حکومت عثمانی نے بھی اس ملک پر حملہ کرکے حماقت کی لیکن اس ظالم حکومت کا بھی انجام وہی ہوا جو برطانیہ کا ہوا تھا یعنی بھاگنا پڑا


١٩٦٢ میں مصر کے سابق صدر "جمال عبدالناصر" کی قیادت میں بھی یمن کے زیدی شیعوں پر نہایت وسیع پیمانے پر حملہ کیا گیا لیکن باالآخر میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ سرزمین یمن مصر کے لیئے ویتنام (vietnam) میں تبدیل ہوگئی ہے، مصر کے فرعون وقت اور موجودہ صدر "عبدالفتاح سیسی" کو شاید اپنے ملک کی تاریخ سے آگاہی نہیں ہے اسی لیئے بےگناہ اور مظلوم یمنیوں کے خون میں لقمہ تر کرنے کے لیئے آل سعود سے دوسو عرب ڈالر رشوت مانگی تھی لیکن اسی ملک میں جو حضرات سنجیدہ اور تاریخ دان ہیں آل سعود کی حکومت بچانے کے لیئے کرایہ کے اتحاد میں شرکت کے شدید مخالف ہیں، مصر اور دنیائے عرب کی معروف شخصیت "جناب حسنین ھیکل" نے ایک ٹی وی پروگرام میں یمن پر حملے کی مذمت اور بعض عرب ممالک کی غلطیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا :


بعض عرب ملک شیعہ اور سنی کے درمیان جنگ اور اختلاف کو ہوا دے رہے ہیں ان لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ سوریہ، لبنان، عراق اور یمن میں اکثریت شیعوں کی ہے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا یمن پر حملہ کرنے سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں زیادہ سونچنا چاہیئے تھا شیعوں سے جنگ دنیائے عرب کو دو حصوں میں تقسیم کردی موصوف نے مذہبی جنگ کو ہوا دینا ایک تاریخی غلطی قرار دیا اور اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ جب اس آگ کے شعلے بھڑک جائیں گے تو کسی میں اس کو روکنے کی طاقت وصلاحیت نہیں ...


یقینا مذہبی منافرت کی آگ سب کو اپنے لپیٹ میں لے لیگی


پاکستان میں بھی جو سنجیدہ طبقہ ہے اپنے وطن سے تھوڑی بہت بھی ہمدردی رکھتا ہے اور نتائج سے آگاہ ہے سعودی حملہ میں شراکت کا شدید مخالف ہے


بی بی سی چائنل (channel) کے مطابق ٢٠١١ میں بحرینی شیعوں کی سر کوبی کے بعد سعودی حکومت نے تصور کیا کہ یہی مڈل (model) یمن میں بھی قابل اجراء ہے لیکن اس جائزہ کا نادرست ہونا واضح ہے بحرینی شیعوں کے پاس ہتھیار نہیں ہیں اور یہ سرزمین ایک جزیرہ ہے ان کو جنگ کا تجربہ بھی نہیں جب کہ حوثی از سر تا پا مسلح ہیں انہوں نے کم از کم دس جنگوں کا مقابلہ کیا ہے جو خود حکومت یمن اور سعودیہ کی طرف سے ٢٠٠٩ میں ان پر مسلط کی گئ تھی


گذشتہ دنوں یمن کے ایک معمولی قبیلہ بنام "طخیہ" نے سعودیہ کے اندر گھس کر ایک فوجی اڈہ "المنارہ" پر قبضہ کر لیا جس میں ١٨ سعودی فوجی اور ایک شہزادہ "فھد بن ترکی بن عبدالعزیز" واصل جہنم ہوا باقی فرار کر گئے اور بہت سے ہتھیار پر قبضہ بھی کر لیا خود سعودیہ کے اندر ان کے مظالم کی دل خراش تصویریں دیکھ کر پائے تخت ریاض میں دو پولس والوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا


آل سعود اور ان کے اتحادی تاریخ سے عبرت حاصل کر نے کے بجائے ایسی حماقت کر رہے ہیں جس کا جبران مشکل ہے
زحمت کش یمنی مجا ھدین جنگ عظیم کے لیئے آمادہ ہبں دوحہ، منامہ، ابوظبی اور ریاض ...
سب انصاراللہ کے توپ خانے کی زد میں ہیں
میرا ان انسانوں سے سوال ہے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی انسانیت ہے اقوام متحدہ جو خود شریک جرم ہے اور درندوں و آل سعود کے پیسوں کے مقابل بکنے والوں سے نہیں ایسے لوگ یا تو ظالم کا ساتھ دے رہے ہبں یا خاموش تماشائی بنے ہیں
آیا یمن پر آنکھیں بند کر کے بم باری صحیح ہے ؟ اس قوم و ملک پر کب تک ظلم ہوتا رہے گا ؟


یمن میں نسل کشی ہو رہی ہے خون کا دریا بہایا جا رہا ہے معصوم بچوں عورتوں کی دل دوز تصویریں دیکھ کر دل دو نیم ہو جاتا ہے "و اذا المؤدہ سئلت ۔ بای ذنب قتلت" (تکویر ٨۔٩)
"اور جب زندہ در گور۔لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی"
آیا مظلوم کا خون رنگ نہیں لائے گا ؟ یقینا خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
رسول گرامی کی حدیث ہے :


"الملک یبقی مع الکفر ولا یبقی مع الظلم"


(امالی شیخ مفید ص٣١٠)


(ممکن ہے) حکومتیں کفر کے ساتھ باقی رہیں لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتیں


(جاری)


والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ


سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارہ دارالعترت عظیم آباد پٹنہ


27 / جمادی الثانی / 1436

subscribe us on youtube

No comments:

Comment

.
WhatsAppWhatsApp par sawaal karen