کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے ؟" اور وطن سے کیا مراد ہے ؟ - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Wednesday, August 17, 2022

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے ؟" اور وطن سے کیا مراد ہے ؟

roman urdu me padhne ke liae click here


بسم الله الرحمن الرحيم
ياصاحب الزمان ادركنا


کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے ؟" اور وطن سے کیا مراد ہے ؟


روایت کی اصل عربی عبارت یوں ہے :


" حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الاْیمانِ "


"وطن کی محبت ایمان کا جز ہے"


اس قسم کی بات عام لوگوں کے درمیان، حدیث رسول (صلى الله عليه و آله) کے طور پر مشہور ہے، جب کہ شیعہ اور سنی کے نزدیک احادیث کی معتبر کتابوں اور ماخذ و مصادر میں اس حدیث کا ذکر نہیں ہے البتہ بعض کتابوں میں سند کا ذکر کیئے بغیر مروی ہے


صرف چند کتابوں کے حوالے ملاحظہ فرمالیں :


  1. شیخ حُرِّ عَامِلِی نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے :

  2. ہم نے ارادہ کیا ہے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر "جَبَل عَامِل" کے علماء کا تذکرہ اپنے بعد کے باقی علماء پر مقدم کروں، ان میں سے ایک وجہ حب الوطنی کا حق ادا کرنا ہے ، جیسا کہ منقول ہے :


    " حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الاْیمانِ "


    "وطن کی محبت ایمان سے ہے"


    [ امل الآمال ج 1 ص 11 - تالیف شیخ حر عاملی ( شیعہ کتاب ) ]


  3. اَعیَانُ الشیعہ ج 1 ص 296 - تالیف سید محسن امین [ شیعہ کتاب ]

  4. کَشفُ الخَفَاء وَ مُزِیلُ الاِلبَاس ج 1 ص 345 - تالیف شیخ اسماعیل بن محمد عَجلُونِی [ سنی کتاب ]

سنی محدثین نے اس روایت کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے اور شیعوں کے قدیمی ماخذ میں اس روایت کا تذکرہ نہیں ہے اور جن کتابوں میں ہے تو سند کے بغیر، لہذا اس عبارت کا روایت ہونا قطعی نہیں ہے اور رسول خدا یا ائمہ (سلام الله عليهم) سے ثابت نہیں ہے، نتیجتا یہ روایت معتبر نہیں ہے


اس کے پیش نظر مذکورہ عبارت کی نسبت رسول اکرم یا ائمہ (صلوات الله عليهم) کی طرف دینا درست و صحیح نہیں ہے


وطن سے کیا مراد ہے ؟


فرض کرلیں اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن وطن کے مفہوم میں اختلاف ہے کہ کونسا وطن مراد ہے، اس حوالے سے چند اقوال اور آرا ملاحظہ فرمالیں :


  1. شیخ بَھَائِی اس روایت میں جغرافیئے کو وطن کی اساس نہیں مانتے آپ نے اس روایت کی تاویل میں فرمایا :

  2. وطن سے مراد آخرت ہے، یہی اصلی اور ابدی وطن ہے، یہ فانی دنیا نہیں، آخرت و بہشت کی محبت ایمان کی نشانی ہے


    اس کے متعلق آپ نے مثنوی بھی کہی ہے


    اس کا ایک مصرعہ اس طرح ہے :


    " این وطن ، مصر و عراق و شام نیست "


    ( نان و حلوا بخش 9 شیخ بهائی )


  3. مکئہ مکرمہ ہے جو قبلئہ عالم اور "اُمُّ القُری" (یعنی تمام شہروں کی ماں) ہے

  4. اسلامی سرزمین ہے اس سے محبت اور اس کا دفاع و حفاظت ایمان کی نشانی ہے

  5. (لیکن اگر وطن، معاند مشرکین اور ناصبیوں کی سرزمین ہو تو یقینا اس کی محبت ایمان کا جز نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس، ایسی سرزمین سے محبت کفر و نفاق کی علامت ہے، تحریر کی وسعت اجازت دیتی تو میں اس حوالے سے کچھ عرض کرتا)


  6. عرف اور سماج و معاشرے میں جس کو وطن کہتے ہیں وہ مراد ہے یعنی جہاں انسان پیدا ہوا اور آبائی وطن ؛ اس سے محبت، ایمان کا حصہ ہے

کیا روایت کا معنی درست ہے ؟


مذکورہ روایت اگرچہ معتبر اور صحیح نہیں ہے اور وطن کے مفہوم میں اختلاف ہے لیکن اس کا معنی درست و صحیح ہے اس لیئے کہ اس میں جو کہا گیا ہے (یعنی وطن کی محبت ایمان کا جز ہے) وہ عقل، فطرت اور آیات و روایات کے مطابق ہے


آیات اور احادیث سے ہمیں حب الوطنی کی دلیل ملتی ہے


وطن سے محبت ایک فطری امر ہے :


وطن سے محبت ایک فطری عمل و چیز ہے، جو جہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں اس کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے فطرتا اور قدرتی طور پر محبت کا ہونا فطری عمل ہے


انسان کو اپنے وطن کے در و دیوار سے الفت و محبت ہو جاتی ہے، یہ محبت نہ صرف یہ کہ انسان میں پائی جاتی ہے بلکہ حیوانات، چرند، پرند، درند حتی چیونٹی کے دل میں اپنے مسکن، گهونسلہ اور وطن سے بے پناه انس ہوتا ہے


بعض فلاسفہ کا کہنا ہے :


" فِطرَةُ الرَّجُلِ مَعجُونَة بِحُبِّ الوَطَن "


"فطرتِ انسان کو وطن کی محبت سے گوندها گیا ہے" (یعنی وطن کی محبت، انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے)


( مُحَاضَرَاتُ الاُدَبَاءِ وَ مُحَاوَرَاتِ الشُّعَرَاء وَالبُلَغَاء - جلد 2 - صفحہ 652 - تالیف راغب اصفهانی )


محبتِ وطن، قرآن کی روشنی میں :


مثال کے طور پر صرف چند ایسی آیات کا ذکر کیا جا رہا ہے جس سے "حُبُّ الوَطَنِی" کی تائید ہوتی ہے


سوره مُمتَحِنَه آیت 8 - 9 اور بقره آیت 246


سوره بقره کی اس آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے


اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الہی قانون کی حفاظت کے علاوه ناموس اور وطن ... کی حفاظت و نجات بهی جہاد ہے


محبتِ وطن، احادیث اور سیرت کی روشنی میں :


احادیث میں بهی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، ذیل میں ہم اس حوالہ سے چند نظائر پیش کرتے ہیں :


  1. اپنے وطن سے جدائی، رسول خدا (صلی الله علیه و آله) پر اتنی شاق تهی کہ مکے سے مدینے کی جانب ہجرت کرتے وقت حزن و ملال سے روتے ہوئے گهر مڑمڑ کر دیکهتے جاتے تهے

  2. ( تفسیر التبیان جلد 9 - صفحہ 288 تفسیر سوره محمد - تالیف شیخ طوسی / مجمع البیان جلد 9 صفحہ 123 تفسیر سوره محمد - تالیف شیخ طبرسی )


    خدا نے اس جملے سے رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کو تسلی دی :


    "یقینا وه (خدا) آپ کو آپ کی جگہ (مکہ) واپس کر دے گا"


    ( سوره قصص 85 )


  3. آپ کے فرزند، امام حسین (علیه السلام) نے بهی ماه رجب 60 ہجری میں مدینے سے مکے کی جانب ہجرت کرتے وقت گریہ کیا

  4. لیکن دونوں معصوم کی ہجرت میں فرق یہ ہے کہ آپ کے جد اپنے وطن واپس آئے لیکن آپ نہ آسکے


  5. امیرالمومنین علی (علیه السلام) کا ارشاد گرامی ہے :

  6. " مِن كَرَمِ المَرءِ بُكاؤهُ على ما مَضى مِن زَمانِهِ ، و حَنينُهُ إلَى أَوطانِهِ ، و حِفظُهُ قَديمَ إِخوانِهِ "


    "یہ انسان کی عظمت و بزرگی میں سے ہے کہ وه اپنے گزرے ہوئے وقت (گزری ہوئی عمر میں کوتاہی) پر روئے اور اپنے وطن کا اشتیاق رکھے اور اپنے پرانے و دیرینہ برادران (دوستوں) کو برقرار رکھے"


    ( بحارالانوار جلد 74 - صفحہ 264 )


  7. امیرالمومنین علی ( علیه السلام ) نے فرمایا :

  8. " عُمِرَتِ الْبُلْدانُ بِحُبِّ الأَوْطانِ "


    "وطن کی محبت سے شہر آباد ہوتے ہیں"


    ( بحارالانوار جلد 78 - صفحہ 45 )


وطن کی تعمیر و ترقی کا راز، وطن سے محبت میں پوشیده ہے، ہمارے ملک کے حکمرانوں اور باشندوں کے لئے اس حدیث میں بہت بڑا درس و سبق ہے


اس حدیث میں امیرالمومنین علی (علیه السلام) نے ایک معیار بتایا ہے کہ اگر کسی شہر یا ملک میں تعمیر و ترقی نہ ہو تو وہاں کے لوگ اور حکام محبِّ وطن اور ملک کے وفادار نہیں بلکہ یہ ملک سے، وطن سے غداری ہے یا ان میں استعداد و لیاقت ہی نہیں پائی جاتی


جس قوم اور حاکم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تمام حدیں پار کر لیں، حبُّ الوطنی، سیاسی نظر بن جائے تو ملک اور وطن کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے، تباه و برباد ہو جاتا ہے، شیرازه بکهر جاتا ہے اور ویرانیوں کی تصویر بن جاتا ہے


مذکوره حدیث سے بهی حبُّ الوطنی کی اہمیت کا اندازه لگتا ہے، اس حدیث کے مطابق وطن کی محبت، شہروں کے آباد ہونے اور خوشحالی کا سبب و باعث ہے


لہذا اس اعتبار سے وطن کی محبت، ایمان کی نشانی و علامت ہے، اس لئے کہ خدمتِ خلق اور اپنے بال بچوں و اہلِ وطن کے واسطے آسائش و رفاهِ عام فراہم کرنا ایمان کا تقاضا و ایمان کی نشانی ہے


واضح رہے کہ وطن سے محبت، ایمان کے منافی نہیں لیکن یہ محبت اندهی و مجنونانہ نہ ہو، کسبِ معاش اور تحصیلِ علم ... کے لئے کہیں جانا پڑے تو یہ محبت رکاوٹ نہ بنے اور اگر تمہارے دین اور تمہارے وطن میں دشمنی ہو جائے تو دین کی محبت پر وطن کی محبت قربان کر دو


دوسرے یہ کہ قوم پرستی، حزب پرستی اور وطن پرستی کا نام حبُّ الوطنی نہیں، قوم پرستی (Nationalism) کو اسلام سے نہ جوڑا جائے، یہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے منافی و خلاف ہے


والسلام

سید شمشاد علی کٹوکهری
خادم ادارہ دارالعترت


19 / محرم / 1444 ھ.ق

subscribe us on youtube

No comments:

Comment

.
WhatsAppWhatsApp par sawaal karen