To read in roman urdu click here
باسمہ تعالی
حضرت علی عليه السلام پر گستاخ منافقین کی جانب سے شراب نوشی کی تہمت کا دندان شکن جواب
امام علی (علیہ السلام) پر طرح طرح کے الزامات لگانا نئی بات نہیں ہے ، کہا جاتا ہے معاذ اللہ آپ کے باپ کافر تھے اور جب محراب عبادت میں ضربت لگی تو کہا گیا آیا آپ نماز بھی پڑھتے تھے ؟ شراب پینے کی جھوٹی نسبت بھی اسی کا حصہ ہے گاہ بہ گاہ کٹھ ملا اور منافقین اپنے شوم سیاسی مقاصد کی خاطر اس جھوٹے الزام کو دہراتے ہیں ، اگر اس بہتان کا تفصیلی جواب دیا جائے تو مبسوط کتاب ہو جائے گی لہذا مختصر اور مفید جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے
سب سے پہلے اس حدیث کی طرف اشارہ کردوں جس کو کٹھ ملا اور دشمن آل رسول بطور دلیل پیش کرتے ہیں
نقل کفر،کفر نباشد (حضرت علی علیہ السلام) سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا : "عبد الرحمن بن عوف" نے ہمارے لئے کھانا پکایا اور ہماری دعوت کی اور شراب دی جب شراب پی لی تو نماز مغرب کا وقت ہو گیا "عبدالرحمن بن عوف" نے مجھ سے نماز پڑھانے کے لئے کہا تو میں نے سورہ کافرون اس طرح پڑھا "لااعبد ماتعبدون ونحن نعبد ما تعبدون" میں ان کو نہین پوجتا ہوں جنہیں تم پوجتے ہو اور ہم لوگ اس کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو (یعنی آیت میں تبدیلی کردی) تو سورہ نسا کی آیت 43 نازل ہوئی
اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو جب تک تم یہ نہ جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو
حوالہ
1 سنن الترمذى ج 5 كتاب تفسيرالقرآن باب سورہ نسا ص 48 ناشر دار الفکر بیروت
2 - سنن ابى داؤد ج 2 كتاب الاشربه باب تحریم الخمر ص 128 ناشر دار الكتاب العربى بيروت
جواب :۔
۔(1) سند ضعیف ہے :۔
خود علمائے اہل سنت کے بقول اس روایت کی سند ضعیف ہے اس لئے کہ نقل کرنے والوں میں "عطا بن سائب" ہے یہ شخص قابل اعتبار نہیں اور پاگل بھی ہوگیا تھا
دوسرا "عبد الرحمن سلمی" ہے یہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن تھا دشمن سے اس کے علاوہ اور کیا توقع ہو سکتی ہے
ماجرا تفصیلی ہے پہلے یہ امام علی علیہ السلام کی طرف تھا جب آپ نے سر کاری خزانے سے پیسے نہ دیئے تو دشمن ہو گیا
دوسرے یہ کہ اس روایت کو ان کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا ہے "یحیی بن معین" نے کہا ہے ان کی روایت قابل اعتماد نہیں ہے
۔1 - نیل الاوطار ج9 کتاب اللاشربہ ص 56 مولف شوکانی
۔2 - الغارات ص 389 مطبوعہ دار اللاضوا بیروت
اس مین مختلف سنی کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے
۔(2) متن میں تناقض :۔
روایت کی اصل عبارت ایک دوسرے کی ضد ہیں ایک عبارت دوسری عبارت کی نفی و انکار کرتی ہے
۔1- داعی میں اختلاف :۔
مثلا ترمذی میں جو روایت ہے اس میں ہے کہ کھانا پکانے والا اور حضرت علی علیہ السلام کو دعوت دینے والا "عبد الرحمن بن عوف" ہے اور سنن ابى داؤد میں ہے انصار میں سے ایک شخص نے دعوت دی تھی اور بعض روایتوں میں ہے حضرت علی علیہ السلام نے دعوت دی تھی
خود دعوت دینے والے میں اختلاف ہے ایک کچھ کہتا ہے اور دوسرا کچھ اور
۔2 - امام جماعت میں اختلاف :۔
بعض روایتوں میں ہے نماز حضرت علی علیہ السلام نے پڑھائی اور بعض میں ہے عبد الرحمن بن عوف نے اور بعض میں نام کا ذکر ہی نہیں ، لکھا ہے فلاں نے پڑھائی
مختصر سنن ابى داوود ج 5 ص 259
۔3- تعداد میں اختلاف :۔
بعض میں ہے حاضرین تین شخص تھے علی علیہ السلام ،عبد الرحمن بن عوف اور انصار میں سے ایک شخص اور بعض میں ہے 5 لوگ تھے ابوبکر، عمر، علی علیہ السلام، عبد الرحمن بن عوف اور سعد
۔4 - آیت سورہ کافرون کی تبدیلی و اضافے میں اختلاف :۔
نماز میں سورہ کافرون پڑھنے کے بعد کہا "ليس لى دين وليس لكم دين" نہ میرے لئے دین ہے اور نہ تمہارے لئے دین ہے
اور بعض روایت میں ہے "قل يا ايها الكافرون اعبد ما تعبدون" اور بعض میں ہے " قل یا ایھا الکافرون لا اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون" اور بعض میں اس طرح ہے "... ونحن عابدون ما عبدتم" و
ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں
۔(3) کتاب سنن ابى داؤد کی اہمیت سے مسلمین آگاہ ہیں اہل سنت کی معتبر ترین کتابوں میں سے ہے حیرت و تعجب کی بات یہ ہے اس کتاب میں ذکر ہے کہ شراب سے متعلق سورہ نسا کی آیت 43 حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ( شروع میں اس روایت کا ذکر کر دیا ہے ) اور خود اسی کتاب میں تفصیلی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : شراب کے بارے میں 3 آیتیں یعنی سورہ بقرہ 219، نسا 43 اور مائدہ 91 عمر بن خطاب کے بارے میں نازل ہوئیں
قارئین توجہ فرمائیں اس آیت کے آخر میں ہے "... فهل انتم منتهون" کیا تم باز آگئے ؟ رسول خدا نے یہ عمر سے پوچھا تھا تو عمر نے کہا "انتهينا" ہم شراب پینے سے باز آگئے
سنن ابى داؤد ج 2 كتاب الاشربه باب تحريم الخمر ص 128 مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت
اس روایت کا ذکر اہل سنت کی دوسری کتابوں میں بھی ہے شراب سے متعلق ایک نہین بلکہ 3 آیتیں عمر بن خطاب کے بارے میں نازل ہوئیں لہذا ایک کتاب کا حوالہ مزید دے دوں
کنزالعمال ج 5 باب حد الخمر ص 472 ناشر مؤسسه الرساله بيروت
اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول خدا نے پوچھا کہ باز آگئے ؟ تو عمر نے کہا ہم باز آگئے طرز کلام بتا رہا ہے کہ عمر اس سے پہلے شراب نوشی کی ممانعت کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے
۔(4) علی علیہ السلام سے متعلق شراب نوشی کی روایت کے بر عکس خود اہل سنت کی معتبر کتابوں میں روایتیں موجود ہیں
صرف ایک تفصیلی روایت کا نچوڑ ملاحظہ فرمائیں : امام علی علیہ السلام نے چند حرام کام کبھی بھی نہیں کیئے ... بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی اور شراب کبھی بھی نہیں پی
درر الاحاديث النبوية بالاسانيد اليحيوية ص160
ان تمام باتوں کے پیش نظر اس میں کوئی شک نہیں کہ جس روایت میں ذکر ہے معاذ اللہ امام علی علیہ السلام نے شراب پی اور آپ کے بارے میں سورہ نسا کی آیت 43 نازل ہوئی یہ جعلی و من گھڑت ہے دشمن خدا ، دشمن رسول اور دشمن آل رسول خبیث عناصر اور منافقین و خوارج کے کارخانے کی پیداوار ہے
مہم سوال :۔
یہ بات ثابت ہوگئی کہ سورہ نسا کی آیت 43 حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی یہ بکواس اور فضول کی باتیں ہیں غلط سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اس طرح کی بات لکھی گئی اور کہی جاتی ہے
سوال یہ ہے کہ شراب سے متعلق سورہ نسا کی صرف ایک آیت نہیں بلکہ مختلف آیتوں کا شان نزول کیا ہے؟
جواب واضح ہے ابوبکر اور عمر کے بارے میں نازل ہوئیں
اطالہ کلام سے بچنے کی خاطر نقل روایت سے صرف نظر کرتاہوں لہذا صرف چند کتابوں کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں ارباب علم و تحقیق اور انصاف پسند خود دیکھ لیں
حوالے دینے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کردوں
بعض لوگ کہتے ہیں ابوبکر و عمر نے شراب پی اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس وقت پی جب حرمت کا حکم نہیں آیاتھا اس وقت شراب چائے کی جگہ تھی جیسے ہم لوگ اس وقت ٹھنڈا و گرم پیتے ہیں اس وقت شراب پیتے تھے ۔ یہ بھی غلط ہے
ابوبکر و عمر دور جاہلیت میں شراب پیتے تھے اور حرمت شراب کا حکم آنے اور خلیفہ بننے کے بعد بھی اس لت سے باز نہی آئے ، دور حاضر کی مثال کے مطابق یوں عرض کروں کہ ٹی پارٹی کی جگہ شراب پارٹی دی جاتی تھی کھانا اور اونٹ کا گوشت ہضم کرنے کے لئے بھی شراب پی جاتی تھی
اس تعلق سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
سنن ابى داؤد كتاب الاشربه باب تحريم الخمر ص 128
كنزالعمال ج5 باب حد الخمر ص 472
فتح البارى ابن حجر ج 10 ص31
سير اعلام النبلاء ج2 ص191مولف زمخشرى
كتاب الموطا امام مالك ج2 ص894
المصنف ابن شيبه ج 6 ص 502
سنن الدار قطنى ج4 ص259
جامع المسانيد ابى حنيفه ج2 ص192
الطبقات الكبرى محمد بن سعد ج3 ص354 ...۔
مزید تفصیل کے لئے الغدیر علامہ امینی ج7 ص95 سے 102 ملاحظہ فر ماییں سنہ اشاعت 1366 خورشیدی
علامہ نے اس کتاب میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت کیا ہے کہ آیات شراب ، اول و دوم کے بارے میں نازل ہوئیں
علی علیہ ا لسلام کی دشمنی میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ گڑھی ہوئی روایت نظر آجاتی ہے اور صرف اسی کو بیان کرتے ہیں لیکن اول و دوم کی شراب نوشی کے بارے میں بے شمار معتبر روایتیں ان کو نظر نہیں آتی ہیں ! ان کا مزاج وحقیقت یہ ہے کہ بروں کو برا نہیں کہتے بلکہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
اختتام اس بات پر کرتا ہوں کہ نفس رسول ، علی علیہ السلام پر طرح طرح کے الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
جواب واضح ہے اہل سقیفہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم امام علی جیسے ہو ہی نہیں سکتے لہذا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کو بھی اپنے جیسا بناؤ ہمارے آباؤ اجداد کافر تھے لہذا ان کے آباؤ اجداد کو بھی کافر کہو ہم شرابی ہیں لہذا ان کو بھی شرابی کہو و...۔
سب کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں
عصر حاضر میں سقیفہ کی ناجائز اولاد بھی یہی کام کر رہی ہیں
بچپن میں ایک داستان سنی تھی ایک گنجے کے پاس کچھ فرشتے آئے اور اس سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے یہ نہیں کہا کہ میرے سر پر بال ہوجائیں بلکہ کہا سبھی میری طرح گنجے ہوجائیں
گنجے کو خدا ناخن نہ دے جو سر کھجائے کمینوں کو خدا اس قدر اختیار نہ دے کہ نفس رسول علی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کریں خدا نے تو ان سے ہر رجس و پلیدی کو دور رکھا ہے
گر قبول افتد زہے عزوشرف
سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم دار العترت عظیم آباد پٹنہ
حوزہ علمیہ قم المشرفہ ایران
۔27 رمضان المبارک 1438 ھ.ق
subscribe us on youtube