حضرت علی اور عثمان کی مدد کا دعوی | خلفا کے ساتھ روابط | عثمان کے قتل کا فتوی کس نے دیا ؟ - Edaara-e-darul itrat
Qabre Hazrat Faatemah | aap ne apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat kis ko nahi di Imaam Ali ki shaan me gholu aur tanqis halaakat ka sabab | fatwa | palestine ke asl haami kaun ? Aqalliyat ka aksariyat par ghalaba | Israil apne wojud ki jang lad raha hai

Tuesday, April 30, 2024

حضرت علی اور عثمان کی مدد کا دعوی | خلفا کے ساتھ روابط | عثمان کے قتل کا فتوی کس نے دیا ؟

roman urdu me padhne ke liae click here


سوال از : محترم جناب ثمر صاحب (بھیک پور سیوان)


ایک سوال ہے
سوال یہ ہے جب بلوائی مدینہ میں داخل ہوئے ہیں عثمان کو قتل کرنے کے لیئے تو اس وقت مولا علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو پہرے کے لیئے در پر لگایا ہے تاکہ کوئی بلوائی داخل ہوکر عثمان کو قتل نہ کردے.


اب ایسے میں اعتراض یہ ہے کہ اگر مولا علی ان تینوں خلیفہ سے بیزار تھے اور ان کو ناحق پہ جانتے تھے اور منافق جانتے تھے تو پھر ان کی جان کیوں بچانی چاہی، جگہ جگہ پہ ان کی حمایت کیوں کی ؟


جواب :


باسمه تعالى
ياصاحب الزمان ادركنا
سلام عليكم


چند ضروری اور تمہیدی باتیں عرض کرنے کے بعد اصل جواب دیں گے انشاءالله


جن لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا وہ باغی یا بلوائی نہیں تھے بلکہ انقلابی تھے


عوام، عثمان کی کرتوتوں، کُنبَہ پروری اور غلط حکمرانی سے تنگ آکر عثمانی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیئے احتجاج کر رہے تھے.
حد ہوگئی تھی عثمان نے شاہد کو کوڑے لگوائے اور شرابی کو چھوڑ دیا


یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عثمان کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور محاصرین کی قیادت سنی بھائیوں کی پیاری امی اور رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کی زوجہ عائشہ کر رہی تھیں حتی عثمان کے قتل کا فتوی بھی صادر کردیا.


عائشہ نے کہا :


"أُقْتُلُوا نَعْثَلاً فَقَد كَفَر"


نَعثَل (عثمان) کو قتل کردو وہ بلا شبہ کافر ہوگیا


تفصیلات کے لیئے یہاں صرف دو سنی کتابوں کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں


  1. تاریخ طبری ج 3 ص 377 ناشر مؤسسہ الاعلمی بیروت

  2. اَلاِمَامَة وَالسِّياسَة المعروف بہ تاریخ خلفا ج 1 ص 72 تالیف اِبنِ قُتَیبَة دِينَوَرِى ناشر دار الاضوا بيروت

واضح رہے کہ اس کتاب میں "أُقْتُلُوا نَعْثَلاً فَقَد كَفَر" کے بجائے "أُقْتُلُوا نَعْثَلاً فَقَد فَجَر" لکھا ہے یعنی نعثل (عثمان) کو قتل کردو وہ بیشک فاجر ہو گیا.


ملحوظ خاطر رہے کہ محاصرین کو عثمان کے قتل پر عائشہ نے اکسایا لیکن الزام امیر المومنین حضرت علی (عليه السلام) پر لگایا گیا


" تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے "


اس وقت معاویہ کی ناجائز اولاد اور نام نہاد مسلم حکمران اہل غزہ کے محاصرے اور ان کے قتل عام میں ہر طرح سے اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں لیکن الزام شیعوں پر لگایا جارہا ہے


" این چه بُوالعَجَبِی است "


اس مختصر تمہید کے بعد سوال کا جواب حسب ذیل ہے


یہ اہم ترین سوال ہے جو لوگ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں، جواب دینے سے پہلے اس چیز کو بھی واضح کردوں کہ "انقلابیوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ..." کے حوالے سے سنیوں کی بعض کتابوں میں عجیب و غریب روایت کافی تفصیل کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیئے اس روایت کے انتخاب و اختصار کو جاننا ضروری ہے، ملاحظہ فرمائیں :


حضرت علی (عليه السلام) نے پانی سے بھری تین مشکیں عثمان کے گھر تک بھیجی ... اور اپنے دونوں صاحبزادوں امام حسن اور امام حسین (عليهما السلام) سے فرمایا :


اِذْهَبَا بِسَیفَیکُما حَتَّى تَقُومَا عَلَى بَابِ دَارِ عُثْمَانَ فَلَا تَدَعَا وَاحِدًا يَصِلُ إِلَيْهِ.


اپنی تلواروں کے ساتھ جاؤ اور عثمان کے دروازے پر کھڑے ہوجاؤ تاکہ کوئی بھی عثمان تک نہ پہنچ پائے ...
طلحہ اور زبیر نے بھی اپنے فرزندوں کو عثمان کی حفاظت کے لیئے بھیج دیا ... حسن (علیہ السلام) انقلابیوں کی تیروں سے مجروح و زخمی ہوئے اور خون میں لت پت ہوگئے ... بلآخر عثمان قتل کر دیئے گئے ... جب حضرت علی (علیہ السلام) اور طلحہ و زبیر کو قتل عثمان کی خبر ملی تو عثمان کے گھر آئے حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے دونوں صاحبزادوں سے کہا تم لوگ دروازے پر کھڑے تھے تمہارے ہوتے ہوئے محاصرین عثمان کے گھر میں داخل کیسے ہوئے ؟ اور قتل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے ؟


وَلَطَمَ الْحَسَنَ وَضَرَبَ الْحُسَيْنَ، وَشَتَمَ مُحَمَّدَ بْنَ طَلْحَةَ، وَلَعَنَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَخَرَجَ وَهُوَ غَضْبَانُ يَرَى أَنَّ طَلْحَةَ أَعَانَ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ فَلَقِيَهُ طَلْحَةُ فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ ضَرَبْتَ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ؟ فَقَالَ: عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ أَلَا يَسُوءُنِي ذَلِكَ يُقْتَلُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ


اور حضرت علی (علیہ السلام) نے ہاتھ اٹھاکر حسن (علیہ السلام) کے رخسار پر تھپڑ مارا اور حسین (علیہ السلام) کے سینے پر مارا (معاذ الله)
اور طلحہ کے فرزند محمد کو گالی دی اور عبد اللہ بن زبیر پر لعنت کی اور غیظ و غضب کی حالت میں وہاں سے چلے گئے، حضرت علی (علیہ السلام) نے دیکھا کہ طلحہ نے عثمان کے قتل میں تعاون کیا ہے، طلحہ امام علی (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا اے ابوالحسن آپ کو کیا ہوا کہ آپ نے حسن و حسین کو مارا ؟ امیر المومنین حضرت علی (علیه لسلام) نے کہا : تم پر خدا کی لعنت ہو ہم کیوں نہ رنجیدہ و غمگین ہوں ؟ جبکہ امیر المومنین (عثمان) قتل کر دیئے گئے ...


  1. "الامامة والسياسة" المعروف بہ تاریخ خلفا ج 1 ص 57 - 59 - 62 - 63 تالیف ابن قتيبة دينورى ناشر دار الاضوا بيروت

  2. تاريخ مدينة منوره ج 4 ص 1304 - 1305 - 1306 تاليف عمر بن شَبَّه نُمَيرى بَصرى

  3. اَنساب الاَشراف ج 5 ص 558 - 559 تاليف بَلاذُرى ناشر دار الفكر بيروت

سنی حضرات اس روایت کو بنیاد بناکر کہتے ہیں کہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے عثمان کا دفاع کیا، ان کی حفاظت و حمایت کی، حضرت علی (علیہ السلام) اور عثمان کے درمیان دوستی و آشتی تھی، امام علی (علیہ السلام) کے عثمان کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات تھے ...


ان باتوں کا دار و مدار اسی روایت پر ہے


اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے دو اجزا و حصے ہیں


  1. سند (راویان حدیث کا سلسلہ)

  2. متن (حدیث کی اصل عبارت)

حدیث درست و صحیح ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں جاننے کے لیئے سند اور متن دونوں کی جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ سند اگر صحیح ہو تو متن بھی صحیح ہوگا اور متن اگر صحیح ہو تو سند بھی صحیح ہوگی


مذکورہ حدیث سنداً و متناً بلا شبہ ضعیف اور قابل اعتماد نہیں ہے


سند کے اعتبار سے :


مذکورہ حدیث کی سند میں جس راوی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ معتبر نہیں ہے، ضعیف و کمزور ہے.


اِبن حِبَّان نے بیان کیا ہے کہ "محمد بن عیسی بن سمیع" نے عثمان کے قتل کیئے جانے کی سرگزشت "ابن ابی ذِئب" سے روایت کی ہے جبکہ عثمان کے قتل کیئے جانے کی سرگزشت ان سے نہیں سنی ہے بلکہ "اسماعیل بن یحیی" سے سنی ہے جو ضعیف ہے
یہی بات "صالح بن محمد" وغیرہ نے بھی کہی ہے


(اَلتَّبيِين لِاَسمَاءِ المُدَلِّسِين ص 52 - 53 تاليف برهان الدين سِبط ابن عَجَمى ناشر دار الكتب العلمية بيروت)


یہ کتاب فن علم رجال پر سنی حضرات کی بہت اہم اور مشہور کتاب ہے، اس میں صرف مُدَلِّسِینِ رُوات کا ذکر ہے


یہاں تین باتوں پر توجہ ضروری ہے :

  1. ابن حبان کو سنی محدثین نے امام، حافظ اور ثقہ تسلیم کیا ہے

  2. "اسماعیل بن یحیی" ضعیف و کمزور راوی ہے

  3. محمد بن عیسی بن سمیع " نے عثمان کے قتل کیئے جانے کا ماجرا "ابن ابی ذئب" سے روایت کیا ہے جب کہ یہ ماجرا ان سے نہیں سنا، لہذا "محمد بن عیسی بن سمیع" مُدَلِّس ہے

سنیوں کے بڑے بڑے عالم دین، فقہا اور اصحاب حدیث نے لکھا ہے :

حدیث میں تدلیس جھوٹ کا ہم پلہ و بھائی ہے بلکہ جھوٹ سے بھی بدتر ہے، زنا سے زیادہ سخت ہے، مدلس کی روایت قابل قبول نہیں، مدلس کی بیان کردہ حدیث، ضعیف بلکہ موضوع (گھڑی ہوئی، جھوٹی) ہے.


(تفصیل کے لیئے برادران سنی کی مشہور کتاب " اَلكِفَايَة فِى عِلمِ الدِّرَايَة " ص 393 و 399 تالیف خطیب بَغدادی کی طرف رجوع کیا جائے.)

اس روایت کی سند میں راوی ضعیف اور مدلس بھی ہے


مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد تاریخ مدینہ کے مؤلف لکھتے ہیں :

وَهَذَا حَدِیثٌ کَثِیرُ التَّخْلِیطِ، مُنْکَرُ الإِسْنَادِ لا یُعْرَفُ صَاحِبُهُ الَّذِی رَوَاهُ عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ...


یہ ایسی حدیث ہے جس میں بہت زیادہ (جھوٹ اور سچ کی) ملاوٹ و تخلیط ہے، اس کی سند کا سلسلہ ناقابل قبول ہے، اس حدیث کو "ابن ابی ذئب" سے روایت کرنے والا راوی پہچانا نہیں جاتا (یعنی راوی مجہول ہے) ...


(تاریخ مدينة منورة ج 4 ص 1306 تالیف عمر بن شبه نميرى بصرى)


مجھے تعجب ہے ان سنی علما پر جو ضعیف، مدلس، مجہول راوی اور ناقابل قبول اسناد اور ملاوٹ و تخلیط والی روایت کو بنیاد بناکر کہتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے فرزندوں کو عثمان کی حفاظت کے لیئے بھیج دیا ... اور معاذاللہ انہیں مارا... اور امام علی (علیہ السلام) کے عثمان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے ۔۔۔


مندرجہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ سند کے اعتبار سے یہ روایت بلا شک و شبہ قابل قبول نہیں ہے اور من گھڑت و جھوٹی ہے.


متن کے لحاظ سے :


معتبر روایت کے مطابق حضرت علی (علیہ السلام) نے عثمان کی حفاظت و حمایت نہیں کی


روایت کا اصل عربی متن ملاحظہ کیجیئے :


مَاجِشُون نے روایت کیا ہے :


حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وسلم وَرَضِيَ عَنْهَا حِينَ حُصِرَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُمِلَتْ حَتَّي وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِدْرِهَا وَهُوَ عَلَي الْمِنْبَرِ، فَقَالَتْ: " أَجِرْ لِي مَنْ فِي الدَّارِ ". قَالَ: نَعَمْ إِلا نَعْثَلا وَشَقِيًّا، قَالَتْ: " فَوَاللَّهِ مَا حَاجَتِي إِلا عُثْمَانُ، وَسَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ ". قَالَ: مَا إِلَيْهِمَا سَبِيلٌ. قَالَتْ: " مَلَكْتَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَسْجِحْ "، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَمَرَكِ اللَّهُ بِهذا وَلا رَسُولُهُ


ترجمہ و مضمون :


ماجشون کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ جب عثمان کا محاصرہ کیا گیا تھا تو (خاندان بنو امیہ کی چشم و چراغ) نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیوی "ام حبیبہ" پَسِ پردہ حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس آئیں جب آپ منبر پر تھے اور کہا :


جولوگ عثمان کے گھر میں ہیں ان کو میری پناہ میں دیں حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا :


ہاں، نعثل (عثمان) اور شقی (سعید بن عاص) کے علاوہ سب کو آپ کی پناہ میں دیا


ام حبیبہ نے کہا :


خدا کی قسم میرا اصل مقصود تو عثمان اور سعید بن عاص ہی ہیں


حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا :


اب وہ دونوں ملنے کے نہیں


ام حبیبہ نے کہا :


اے فرزند ابوطالب آپ اقتدار میں آگئے ہیں پس عفو و کرم سے کام لیں


حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا :


خدا کی قسم، خدا اور اس کے رسول نے تمہیں ایسا حکم نہیں دیا ہے


(تاریخ مدینہ منورہ ج 4 ص 1167 تالیف عمر بن شبہ نمیری بصری ناشر دار الفکر)

پہلی روایت کے متن میں ہے حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے فرزندوں کو عثمان کی حفاظت کے لیئے بھیج دیا ... اور (معاذاللہ) انہیں مارا ...


اور اس روایت کے متن میں ہے امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے عثمان کو زوجئہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پناہ میں نہیں دیا


در حقیقت اس روایت کے مطابق امام علی (علیہ السلام) عثمان کی حفاظت و حمایت کے سخت مخالف تھے


یہ حدیث اس روایت سے متعارض و متناقض اور منافی و خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے صاحبزادوں کو عثمان کی حفاظت کے لیئے بھیج دیا ...


پہلی حدیث کی اسناد میں مجہول، ضعیف اور مدلس ... راوی موجود ہیں لیکن یہ روایت صحیح الاسناد ہے، اس کی سند کاملا صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں


اس روایت کی تائید ان معتبر روایات سے بھی ہوتی ہے جس میں امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے قسم کھائی ہے کہ عثمان کا دفاع نہ کروں


لہذا پہلی روایت من گھڑت اور خود ساختہ ہے


دوسری بات یہ کہ پہلی روایت کے متن میں مندرجہ ذیل چند امور قابل غور ہیں :


  1. حضرت علی (علیہ السلام) کے نزدیک طلحہ نے عثمان کے قتل میں تعاون کیا اور فرمایا تم (طلحہ) پر خدا کی لعنت ہو

  2. سنیوں کے نزدیک طلحہ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے عظیم المرتبت صحابی ہیں لیکن حضرت علی کے نزدیک وہ قتل عثمان میں شریک تھے اور آپ نے ان پر لعنت کی جب کہ برادران سنی کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ بغیر کسی استثنا کے عادل اور واجب التعظیم و الاحترام ہیں، ان میں سے کسی پر طعن کرنا جائز نہیں.


    امام مالک کہتے ہیں جس نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صحابہ میں سے کسی کو برا کہا خواہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی ہوں یا معاویہ اور عمر بن عاص ہوں اگر یوں کہا کہ وہ کافر اور گمراہ تھے تو یہ واجب القتل ہے اور اگر عام لوگوں جیسی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے


    سنی بھائیوں کے لیئے تین ہی راستے ہیں


    حضرت علی (علیہ السلام) نے طلحہ پر لعنت کرکے (معاذاللہ) ناجائز کام کیا یا طلحہ عادل نہیں تھے اس لیئے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ان پر لعنت کی یا یہ روایت غلط و باطل ہے


    پہلی اور دوسری بات و راستہ سنی عقیدے کے خلاف ہے اس لیئے کے سنیوں کے نزدیک سب صحابہ عدول ہیں


    سنی بھائیوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے وہ یہ ہے کہ جس روایت میں کہا گیا کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے عثمان کی حمایت کے لیئے امام حسن اور حسین (علیہم السلام) کو بھیج دیا... وہ روایت من گھڑت و جھوٹی ہے


  3. حضرت علی (علیہ السلام) نے طلحہ کے فرزند محمد کو گالی دی، کسی کو گالی دینا انتہائی مذموم اور قبیح عمل ہے امیر المومنین و معصوم خلیفة المسلمین کی شان سے بعید ہے کہ وہ کسی کو گالی دے

  4. حضرت علی (علیہ السلام) نے ہاتھ اٹھاکر حسن (علیہ السلام) کے رخسار پر تھپڑ مارا اور امام حسین (علیہ السلام) کے سینے پر مارا (العیاذ باللہ)

  5. یہ کہنا بہت بڑا جھوٹ اور صریح گستاخی ہے، سنی کتابوں میں ہے کہ حسنین کریمین (علیہم السلام) نے عثمان کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہیں کی، جب کوتاہی نہیں رہی تو ڈانٹنے اور مارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا


    دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی صریح نص (جیسے آیت تطہیر وغیرہ) اور حدیث کی نص کے مطابق حضرت علی اور امام حسن و حسین (علیہم السلام) معصوم ہیں، یہ حضرات کبھی کسی طرح کی غلطی نہیں کرتے


    یہ حدیث نص قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف ہے، حدیث کی صداقت کو ناپنے کی سب سے بڑی کسوٹی قرآن حکیم ہے لہذا اس حدیث کو دیوار پر مار دو


قارئینِ با تمکین پر عیاں ہوگیا کہ یہ روایت سنداً اور متناً موضوع، باطل اور مردود ہے


علامہ امینی (نور اللہ مرقدہ) نے اپنی کتاب الغدیر میں قتل عثمان ... کے متعلق روایت کو ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ جو لکھا ہے اس کا خلاصہ ملاحظہ کریں :


امام علی (علیہ السلام) کا عثمان کی حمایت اور اپنی اولاد کو ان کے گھر بھیجنے کی روایت جھوٹی اور جعلی روایتوں میں سے ہے، اور اس قسم کی روایتیں صحیح اور متفق علیہ تاریخ اور دوسری ان سینکڑوں متواتر، بہت قوی روایات سے متعارض و متناقض ہیں جو حضرت علی (علیہ السلام) اور اصحاب شوری، عَشرَئہ مُبَشَّرہ اور بَدرِیُّون میں سے بعض صحابہ کی طرف سے عثمان کے قول و فعل پر تنقید کرنے کے بارے میں ہیں، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کو عثمان کے دفاع اور حفاظت کے لیئے نہیں بھیجا بلکہ وہ ہمیشہ ان کے مخالفین کی صف میں شامل رہے اور عثمان کی غلط و ناپسند روش کو درست کرنے اور طرز حکومت اور نظم و نسق کو قرآن اور سنت کے معیار کے مطابق بحال کرنے کے لیئے جہاد کرنے اور لڑنے سے باز نہیں آئے


(الغدیر ج 9 ص 242 اور اس سے قبل و بعد، قدیم ایڈیشن ناشر دار الکتب الاسلامیہ تہران)

اس بحث کا خلاصہ :


جس روایت میں کہا گیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے پانی سے بھرے مشکیزے عثمان کے گھر بھیجے ... عثمان کا دفاع کیا ... اپنے دونوں صاحبزادوں کو حفاظت کے لیئے بھیجا ... دونوں زخمی ہوئے ... ان کو خوب ڈانٹا اور مارا ... یہ سب روز روشن کی طرح من گھڑت، خودساختہ اور باطل ہے ان باتوں کو ناصبیوں نے گھڑا ہے


افسوس صد افسوس شیعوں کے درمیان بھی عثمان کا دفاع کرنے کے بارے میں باتیں بہت شہرت پا گئی ہیں حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں جو قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی ہیں


حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض اہل علم جانتے بوجھتے اتحاد کی خاطر ایسی روایتوں کی بے بنیاد توجیہ و تاویل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں


مذکورہ بالا بحث یقینا ایک طویل بحث ہے جس پر اختصار سے گفتگو کی کوشش کی ہے


آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ اگر حضرت علی (علیہ السلام) تینوں خلیفہ سے بیزار تھے ... تو پھر ان کی حمایت جگہ جگہ کیوں کی ؟


ہر ایک کے جواب کے لیئے جداگانہ اور مبسوط کتاب قلمبند کرنے کی ضرورت ہے


ایک کہاوت ہے :


"دیگ میں سے ایک ہی چاول دیکھتے ہیں یا ٹتولتے ہیں"


ایک سے سب کی جانچ ہو جاتی ہے، چاول کا ایک دانہ پوری دیگ کی نمائندگی کرتا ہے، ایک دانہ دیکھ کر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ چاول پک گئے ہیں یا کچے ہیں ؟


آپ نے ابھی اوپر پڑھا کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے عثمان کی حمایت، حفاظت اور مدد ... نہیں کی، اسی سے باقی دو خلیفہ کے بارے میں یہ پتہ چل جائے گا کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے شیخین (ابوبکر و عمر) سے باہمی تعلقات اور روابط تھے یا نہیں ؟
مختصراً صرف اتنا بتلا دوں کہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے ہرگز کبھی بھی خلفائے ثلاثہ یا ان کی حکومت کی حمایت نہیں کی بلکہ اسلام و مسلمین کی خدمت، مدد اور نجات و بھلائی کے لیئے ان کو مشورے دیئے


یہی سوال حضرت یوسف کے بارے میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ آپ نے مصر کے کافر اور ظالم بادشاہ کی حمایت و مدد کیوں کی ؟ جب کہ سورہ ہود آیت 113 میں ہے :


"ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ..."


اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف نبی تھے کافر و ظالم کی حمایت و مدد ہرگز نہیں کی بلکہ قوم و ملت کی نجات، بھلائی اور ان کو قحط سالی سے بچانے کے لیئے جس گودام میں غلہ جمع کیا جاتا ہے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.


سورہ یوسف آیت 55 میں ہے :


" قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ "


(یوسف نے بادشاہ مصر سے) کہا مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کردو بےشک میں حفاظت کرنے والا جاننے والا ہوں


غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت یوسف نے کوئی سیاسی یا فوجی عہدہ و منصب قبول نہیں کیا بلکہ ملکی خزانے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر و ظالم کی حمایت و مدد ہو جائے


جس طرح خدا کے نبی حضرت یوسف نے قوم و ملت کی نجات، بھلائی اور مدد کے لیئے وقت کے بادشاہ کو مشورہ دیا، اس کی حمایت نہیں کی اسی طرح نبی خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے برحق وصی حضرت علی (علیہ السلام) نے خلفائے ثلاثہ کو مشورے دیئے ان کی یا غصب شدہ خلافت کی حمایت و مدد ہرگز نہیں کی


اگر مشورہ دینے کو بنیاد بناکر یہ کہا جائے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے خلفائے ثلاثہ سے خوشگوار تعلقات تھے تو یہی بات حضرت یوسف کے بارے میں بدرجئہ اولی کہنی چاہیئے اس لیئے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے خلفا کو صرف مشورے دیئے، ان کی رہنمائی کی لیکن حضرت یوسف نے مشورہ دینے کے علاوہ ملکی خزانوں پر ماموریت کو بھی قبول کیا


تبصرہ :


  1. نَعثَل :

  2. لغت میں اس کے کئی معنی ہوتے ہیں ان میں سے چار یہ ہیں :


    1. جسم پر بہت زیادہ بال والا شخص
    2. کھوسٹ و بےوقوف بڈھا
    3. لکڑ بھگا
    4. بِجُّو

    ایک احمق یہودی شخص جس کا قد لمبا، داڑھی بڑی اور شکل بری تھی


    عثمان کی مشابہت و مماثلت اس یہودی کے ساتھ تھی اور جسم پر بال زیادہ تھے اس لیئے یہ لقب عثمان کو دیا گیا


    اس حوالے سے جو سوال انتہائی دلچسپ اور توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ عثمان کو سب سے پہلے "نعثل" کس نے کہا ؟


    سنی روایات اور تاریخی اعتبار سے عائشہ نے سب سے پہلے عثمان کے لیئے "نعثل" کا لفظ و لقب استعمال کیا
    (اس حوالے سے شروع میں عائشہ کا قول نقل کیا ہے)


    شیعوں سے بغض و عناد رکھنے والے کہتے ہیں کہ عثمان کی تنقیص کے لیئے اور بطور استہزا شیعوں نے یہ لقب دیا جھوٹ اور جہالت کی حد ہوگئی


    " کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤسچ بولیں "


  3. تدلیس کی اقسام ہیں ان میں سے ایک قسم، سند میں تدلیس ہے، شروع میں جس روایت کا ذکر کیا گیا، اس کی سند میں تدلیس کی گئی ہے لہذا اس کے پیش نظر تدلیس کا عام فہم مطلب ہوا :

  4. ایسے شخص سے روایت کرنا جس سے سنا نہ ہو اور محدث کا قصداً اس روایت کو کسی دوسرے قوی راوی کی طرف نسبت دینا، تاکہ اپنی روایت کو قابل اعتماد ثابت کرسکے (اس کوتدلیس کہا جاتا ہے)


    یہ روایت کے عیب کو چھپانا اور دھوکہ دینا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، تدلیس شدہ روایت ناقابل قبول ہے


  5. مُدَلِّس :

  6. تدلیس کا مرتکب، اس راوی کو کہتے ہیں جو حدیث کو بیان کرکے یہ تاثر دے کہ اس نے اس راوی سے سنا ہے جس کا اس نے نام لیا ہے حالانکہ اس سے سنا نہ ہو


مزید اور تفصیلی معلومات کے لیئے دی گئی ویڈیو ملاحظہ فرما لیں


Video : Farzande Ali aur kholafa ka naam click here


والسلام

سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارئہ " دارالعترت " عظیم آباد / پٹنہ شعبئہ سوالات قم ایران


18 / شوال / 1445ھ.ق

subscribe us on youtube

No comments:

Comment

.