ابوتراب کنیت کی اصل حقیقت اور تاریخ | اسرار | سنی حدیث کا جواب - Edaara-e-darul itrat
Qabre Hazrat Faatemah | aap ne apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat kis ko nahi di Imaam Ali ki shaan me gholu aur tanqis halaakat ka sabab | fatwa | palestine ke asl haami kaun ? Aqalliyat ka aksariyat par ghalaba | Israil apne wojud ki jang lad raha hai

Thursday, March 14, 2024

ابوتراب کنیت کی اصل حقیقت اور تاریخ | اسرار | سنی حدیث کا جواب

roman urdu me padhne ke liae click here


باسمه جلت اسمائه

يا صاحب الزمان ادركنا


ابوتراب کنیت کی اصل حقیقت اور تاریخ | اسرار | سنی حدیث کا جواب


محترم مومنین جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت علی (عليه السلام) کی ایک مشہور و معروف کنیت ابوتراب ہے
تراب کے معنی، خاک اور زمین ہے، اس کے پیش نظر ابوتراب کا معنی ہے "خاک کے باپ" اور "زمین کے باپ"


بعض روایات کے مطابق یہ کنیت امیر المومنین علی (عليه السلام) کو سب کنیتوں سے زیادہ محبوب تھی، اس کنیت سے پکارے جانے سے بہت خوش ہوتے تھے، یہ کنیت خود رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے دی تھی۔


لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کنیت کب رکھی ؟


اس کے متعلق ایک سنی روایت کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں


ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی علیہ السلام کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے پوچھا کہ آپ کے چچازاد بھائی کہاں ہیں ؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ مجھ سے ناراض و غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو علی کہاں ہیں ؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ ! علی مسجد میں سو رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ علی علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور عبا ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور ان کے بدن سے مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ان کے بدن سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے کہ اے ابوتراب اٹھیں، اے ابو تراب اٹھیں۔


(صحیح مسلم بِشرحِ النَّوَوِى ج 15 ص 182- كتاب الفضائل باب فضائل علی ابن ابیطالب - ناشر دار الفکر)


جب انسان پر نفرت اور دشمنی سوار ہوجائے تو وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ امیر المومنین علی اور حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) کی زندگی کے چشمئہ صافی کو عصبیت، تعصب اور بغض کے خار و خس سے مکدر کرنے کی ہر کوشش کرتا ہے۔


امیر المومنین حضرت علی اور دختر رسول خدا حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) سے بنو سقیفہ اور بنو امیہ کی عداوت و دشمنی اور بغض و کینہ سورج سے بھی زیادہ واضح اور روشن ہے، سب پر پوری طرح واضح و ظاہر ہے۔


اہل بیت علی الخصوص امیر المومنین علی اور دختر رسول حضرت فاطمہ (صلوات الله و سلامه عليهم) کے خلاف بنو سقیفہ اور بنو امیہ حدیث کی جعل سازی کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے۔


مذکورہ روایت کے من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہوسکتا اس لیئے کہ یہ روایت صِدِّیقِ اکبر حضرت علی اور صِدِّیقَئہ کبری حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے لیئے جعل کی گئی ہے۔


حضرت علی اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیهم) کی گھریلو اور ازدواجی زندگی انتہائی پاکیزہ اور قابل تقلید ہے، آپ دونوں کی زندگی میں ترشی، سخت مزاجی، شکوہ اور ناراضگی کی کوئی جگہ نہیں تھی۔


جو شخص اپنی زندگی میں نکاح کے بنیادی مقاصد، دین، اخلاق، اچھے کردار اور انسانیت کی رعایت نہیں کرتا وہ اپنی زندگی میں درد سر، مصیبتوں و تلخیوں کا زہر گھول دیتا ہے، زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے اور لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔


آپ کی زندگی میں مادیت، روحانیت پر غالب نہیں تھی اسی لیئے آپ دونوں کی زندگی، زندگی کے تمام پہلوؤں میں پوری انسانیت کے لیئے مشعل راہ ہے۔
ان دونوں شخصیات کی ازدواجی زندگی رسول خدا (صلى الله عليه وآله) اور وفا شعار رفیقئہ حیات ام المومنین حضرت خدیجہ (سلام الله عليها) کی طرح تھی، رسول اکرم (صلى الله عليه وآله) اور عائشہ و حفصہ کی طرح نہیں تھی، اس لیئے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله) دونوں سے ہمیشہ ناراض رہتے تھے۔


صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق خود نبی (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا :


عائشہ کا گھر فتنہ گری کا مرکز و محور ہے اور کفر کا سرغنہ یہاں سے آئے گا۔


حضرت فاطمہ سے حضرت علی (سلام الله عليهم) کی ناراضگی والی روایت جھوٹی، گھڑی ہوئی، خود ساختہ اور باطل ہے۔


پہلی بات تو یہ ہے کہ عائشہ اور حفصہ نے رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کو بہت زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی جس کی وجہ سے آپ ان دو بیویوں سے ناراض رہتے تھے، اس لیئے یہ روایت گھڑی تا کہ یہ ثابت کریں کہ حضرت علی، حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) سے ناراض تھے، میاں بیوی میں ناراضگی ایک عام بات ہے، اس بنا پر بھی عائشہ اور حفصہ سے ناراضگی کی توجیہ پیش کر سکیں۔


دوسری بات یہ ہے کہ روایت درست ہے یا نہیں ؟ اس کے لیئے سنیوں کے جلیل القدر محدثین نے چند معیار قائم کیئے ہیں، جن پر روایت کو پرکھتے ہیں اور روایت و خبر کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اگر اس معیار پر نہیں اترتی تو چاہے کتنی ہی مستند و صحیح ہو انہیں رد کردیا جاتا ہے، سند کو نظر انداز کرتے ہوئے چند معیار و کسوٹی درج ذیل ہیں :


  1. صحابہ کی شان کے خلاف نہ ہو اور اس سے توہین صحابہ نہ ہوتی ہو

  2. حضرت فاطمہ سے حضرت علی (سلام الله عليهم) ناراض و خفا ہوئے، یہ حضرت علی (عليه السلام) کی شان کے خلاف اور آپ کی توہین ہے، اس لیئے کہ نبی کی لخت جگر حضرت فاطمہ جیسی عظیم ہستی سے حضرت علی (سلام الله عليهم) ناراض ہو ہی نہیں سکتے۔


  3. قرآن کے خلاف نہ ہو

  4. مذکورہ روایت قرآن کے خلاف و منافی ہے اس لیئے کہ قرآن کی نص صریح (جیسے آیت تطہیر سورہ احزاب آیت 33 وغیرہ) کے مطابق حضرت علی اور حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) دونوں معصوم تھے، خدا نے آپ دونوں کو ایک دوسرے سے ہر قسم کی ناراضگی سے بھی پاک رکھا ہے لہذا ناراضگی و خفگی آپ دونوں کی زندگی سے کوسوں دور تھی۔


  5. کسی دوسری قوی و مضبوط روایت کے خلاف نہ ہو

  6. "نبی نے حضرت علی کی کنیت ابوتراب حضرت فاطمہ (صلوات الله و سلامه عليهم) سے ناراض ہونے کے بعد رکھی" کا ذکر سنیوں کی متعدد و مختلف روایات میں نہیں ہے، ان میں ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) کے بدن سے مٹی لگ گئی تھی اس لیئے رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے ابوتراب کی کنیت سے نوازا، ناراضگی کا کوئی ذکر نہیں۔


    تفصیلی روایات کے لیئے سنیوں کی صرف چند کتابوں کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :


    1. اَلمُستَدرَك عَلَى الصَّحِيحَين ج 3 ص 151 تاليف حاكم نيشابورى ناشر دار الكتب العلميه بيروت

    2. اس کتاب میں مذکور حدیث کو صحیح کہا گیا ہے۔


    3. تاریخُ الرُّسُل وَالاُمَم وَالمُلوك المعروف بہ تاریخ طَبَری ج 2 ص 408 تالیف ابن جریر طبری - ناشر دار التراث

    4. اَلْبِدایَةُ وَ النَّهایة ج 6 ص 244 تالیف ابن کثیر ناشر احيا التراث العربى بيروت۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالا کتابوں میں جو روایت درج ہے اسی مضمون کی روایت شیعہ کتابوں میں بھی وارد ہے، آئندہ کی سطروں میں حضرت عمار یاسر سے مروی روایت آئے گی۔


موضوع سے مربوط ایک دوسری روایت کے متن کا مضمون و مفہوم بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے


حضرے ابن عباس سے مروی ہے :


رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے انصار و مہاجرین کے درمیان عَقدِ مُواخَات (آپس میں برادری و بھائی چارہ کرنے کا عہد و پیمان) قائم کیا لیکن اپنے اور حضرت علی (عليه السلام) کے درمیان رشتئہ اخوت استوار نہ کیا یا حضرت علی (علیه السلام) اور ان میں سے کسی کے درمیان مواخات (بھائی چارہ کا رشتہ) نہ کرائی اس پر حضرت علی (عليه السلام) ناراض ہوکر چلے گئے رسول خدا صلى الله عليه وآله) سے رہا نہ گیا، آپ کو تلاش کرنے کے بعد پایا تو دیکھا کہ آپ سو رہے ہیں اور جسم پر گرد و غبار پڑی ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیه وآله) نے اپنے پاؤں سے حضرت علی (عليه السلام) کو مارا اور آپ سے کہا اٹھو، آپ کے علاوہ کسی میں صلاحیت و لیاقت نہیں ہے کہ "ابوتراب" (خاک کا باپ) ہو...


(مَناقِب خَوَارِزمی ص 40 سنی کتاب)


اس روایت میں بیان کی گئیں چند باتیں قابل توجہ ہیں :


  1. پہلی روایت میں کہا گیا کہ حضرت علی، حضرت فاطمہ (سلام الله عليهم) سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے... تو اس وقت رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے آپ کی کنیت "ابوتراب" رکھی اور اس روایت میں کہا گیا کہ حضرت علی (علیه السلام) خود رسول گرامی (صلى الله عليه وآله) سے ناراض ہوکر چلے گئے... اس وقت "ابوتراب" کے الفاظ سے پکارا۔

  2. ایک ہی موضوع (ابوتراب) پر آخر دو طرح کی روایتیں کیوں؟
    یقینا "دال میں کچھ کالا ہے"


  3. روایت میں ہے کہ رسول اکرم (صلى الله عليه وآله) نے اپنے پاؤں کی ٹھوکر مار کر حضرت علی (عليه السلام) کو جگایا...

  4. ایک عام آدمی کسی عام انسان کو لات مار کر اٹھائے تو یہ ناپسندیدہ و برا فعل ہے، ایک شریف آدمی ایسا نہیں کرتا۔


    دوسرے یہ کہ یہ انسان کی توہین و تذلیل ہے، احترامِ آدمیت کے خلاف اور بدسلوکی ہے۔


    رسول کریم (صلى الله عليه وآله) کا حتی جانوروں کے ساتھ برتاؤ کریمانہ و محترمانہ ہوتا تھا، آپ کا حسن سلوک ہمارے لیئے انمول اور قابل تقلید ہے
    کسی کو پاؤں کی ٹھوکر لگا کر اٹھانا وہ بھی امیر المومنین حضرت علی (عليه السلام) جیسی شخصیت کو، آپ کی شان کریمی و رحیمی اور حسن سلوک کے خلاف ہے اور توہین رسالت و توہین صحابی بھی ہے لہذا یہ روایت بھی من گھڑت ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ کنیت ابو تراب حضرت علی (عليه السلام) کی ایک ایسی فضیلت و مدحت ہے جو بنو سقیفہ اور بنو امیہ کے حلق سے نیچے نہیں اترتی، اس لیئے امام علی (عليه السلام) کی ناراضگی والی روایات گھڑی گئیں۔ یہ بات، اوپر کی تفصیلات سے واضح ہے۔


حتی بنوامیہ کو کنیت "ابوتراب" سے سخت چِڑ تھی اس لیئے امیرالمومنین حضرت علی (عليه السلام) کی توہین و تحقیر کرنے کے لیئے آپ کو اس کنیت سے پکارتے تھے۔


"کھسیانی بلی کھمبا نوچے"


سنی علما و محدثین نے خود اس کا اعتراف کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:


بنو امیہ کے بعض لوگ تحقیر کرنے کے ارادے سے حضرت علی (عليه السلام) کو ابوتراب کہکر پکارتے تھے اور یہ نام آپ کو رسول خدا (صلی اللہ علیه و آله) نے دیا تھا۔


(اَلْبِدایَةُ وَ النَّهایة ج 7 ص 271 سنی کتاب)


اگر اس میں "ذم" والی کوئی بات ہوتی تو یہ کنیت آپ کو محبوب نہ ہوتی، صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ :


حضرت علی (عليه السلام) کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت خود رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے رکھی تھی۔


(صحیح بخاری ج 7 - ص 382 و 383 - کتاب الادب باب : ایک کنیت ہوتے ہوئے دوسری ابوتراب کنیت رکھنا جائز ہے)


اس بات سے بھی آگاہ کیئے دیتا ہوں کہ بنو امیہ شیعئہ علی (عليه السلام) کی تحقیر کے لیئے پکارتے وقت ان کے لیئے رافضی اور ابوترابی کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔


رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے حضرت علی (عليه السلام) کو ابوتراب کے الفاظ سے کس وقت اور کس جگہ پکارا ؟


اس بارے میں شیعہ کتب احادیث و سیرت میں روایات متعدد و مختلف ہیں۔


ان روایات میں سے جو مشہور ہے ذیل میں اس کا انتخاب و اختصار ملاحظہ فرمائیں :


حضرت عمار یاسر سے روایت ہے کہ غزوئہ "عَشِیرَہ" کے موقع پر حضرت علی (عليه السلام) اور ہم بنی مُدلِج کے باغ میں روئے زمین پر بکھری ہوئی نرم خاک پر سوئے ہوئے تھے جب رسول خدا (صلى الله عليه وآله) ہمارے پاس آئے تو مشاہدہ کیا کہ ہمارا تمام جسم روئے زمین پر بکھری ہوئی مٹی سے اٹا ہوا ہے اس وقت اور اس جگہ رسول اکرم (صلی اللہ علیه وآله) نے حضرت علی (علیه السلام) کے لیئے فرمایا :


"یا "ابا تراب"


(اے ابوتراب)


پھر آپ کی شہادت کی خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ شہادت کیسے ہوگی اور کون شہید کرے گا۔


(إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الهدیٰ ج 1 ص 165 تالیف شیخ طبرِسی مطبوعہ الحدیثہ)

رسول خدا نے حضرت علی (صلوات الله و سلامه عليهم) کو ابوتراب کی کنیت سے سرفراز کیوں کیا ؟


اس کی ایک بہت اہم وجہ ملاحظہ فرمالیں :


رسول اکرم اور حضرت علی (عليهم السلام) کے چچازاد بھائی اور اسلام کے ابتدائی عہد کے مفسر، فقیہ اور محدث حضرت ابن عباس سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :


لِأَنَّهُ صَاحِبُ الْأَرْضِ وَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى أَهْلِهَا بَعْدَهُ وَ بِهِ بَقَاؤُهَا وَ إِلَيْهِ سُكُونُهَا وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ إِنَّهُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَ رَأَى الْكَافِرُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لِشِيعَةِ عَلِيٍّ مِنَ الثَّوَابِ وَ الزُّلْفَى وَ الْكَرَامَةِ قَالَ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَاباً يَعْنِي مِنْ شِيعَةِ عَلِيٍّ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً


ترجمہ و مفہوم :


کیونکہ نبی (صلی الله علیه و آله) کے بعد، علی(علیه السلام) زمین کے صاحب و مالک ہیں اور اہل زمین پر خدا کی حجت ہیں اور انہیں کے ذریعہ زمین کی بقا ہے اور انہیں کے واسطے زمین ساکن ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیشک جب قیامت کا دن ہوگا تو کافر یہ دیکھے گا کہ خدائے بزرگ و برتر نے علی کے شیعوں ( پیروکاروں) کے لیے کس قدر ثواب، خاص مقام اور منزلت و کرامت مہیا کر رکھا ہے، تو وہ کہے گا : اے کاش میں خاک ہوتا، یعنی علی کے شیعوں میں سے ہوتا، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی طرف اشارہ ہے: کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا۔ سورہ نبا آیت 40


(عِلَلُ الشَّرَائِع ج 1 ص 156 تالیف شیخ صدوق)


یہاں یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اس آیت میں مذکور "تراب" کا اشارہ امیر المومنین حضرت علی (عليه السلام) کے شیعوں کی طرف ہے۔


قیامت کے دن آپ کے شیعوں کو "تراب" کہکر پکارا جائے گا۔


شیعوں کو تراب کہنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شیعئہ علی (عليه السلام) آپ کے حکم کے سامنے متواضع و خاکسار ہیں، آپ کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں، آپ کے فرامین کو بلاچون و چرا تسلیم کرتے ہیں، آپ کی پیروی کرتے ہیں اور آپ جیسی نوری ہستی کے سامنے خود کو خاکی سمجھتے ہیں۔


مختصر یہ کہ ابوتراب معمولی کنیت نہیں ہے اس کے صرف لفظی ترجمہ پر نظر نہ رکھیں اس میں بڑے اسرار پوشیدہ ہیں جن کے بیان کرنے کا موقع یہاں نہیں


تبصرہ :


عقد اخوت کے متعلق معلومات کے لیئے نیچے دی گئی لنک دباکر ویڈیو ملاحظہ کر لیں۔


Sabse zeyaada Resaalat ki tauheen kisne ki ? | sahaaba par Hazrat Ali ki bartari part-3


video ke saare hisse dekhne ke liae click here



والسلام

سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارئہ "دار العترت"


25 / شعبان / 1445ھ.ق

subscribe us on youtube


No comments:

Comment

.